Tuesday, August 17, 2010

کراتشی



کراتشی
اجلاس جاری ہے، سارے بڑوں کی بیٹھک موجود ہے۔۔ دن بدن صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔۔ تشویشنانک ماحول۔۔
ہم باوجود کوشش کے اپنے اہداف سے دور ہیں ابھی تک۔۔۔ اور۔۔ اور ہماری طاقت کم ہوتی جا رہی ہے بدن نڈھال ہوئے جا رہے ہیں۔ تم لوگ کچھ کرتے کیوں نہیں۔۔۔" اس کی آواز باوجود غضب کے ہلکی نکل رہی تھی۔۔ نقاہت اس کے چہرے پر بھی تھی۔اس نے لائن سے بیٹھے زرد رو چہروں پر نظر دوڑائی۔۔

٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭
اس بستی کے لوگ خوشحال تھے، پرسکون تھے، اور دکھ سکھ سانجھے تھے۔ ایک کی پریشانی سب کی پریشانی بن جاتی تھی۔۔ ملک صاحب شام کی سیر کو باہر نکلتے تھے تو باہر کھیلتے بچے مؤدبانہ سلام پیش کرتے تھے۔ وہ سب کی پڑھائی اور دیگر احوال پوچھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔۔ آگے چوک میں سب کی بیٹھک جو جمتی تھی۔۔ خانصاحب، شیخ صاحب، زیدی صاحب سب ہی موجود ہوتے تھے۔ اپنی آنکھوں سے پھلتی پھولتی اس بستی کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔۔ کسی کی بیٹی کی شادی تو وہاں فکر مندی ہے کہیں کچھ کمی نہ رہ جائے۔۔ باورچی تو بس فتو ہی ہے۔ اس کے ہاتھ کے بنے قورمے کی دیگ کا جب ڈھکنا اٹھتا ہے تو پورا محلہ مہک اٹھتا ہے۔۔۔ کسی کے بچے شرارتی ہوں، کسی کا کوئی بھی مسئلہ وہی حل ہوجاتا تھا۔
مگر آج کی بیٹھک میں بےرونقی تھی۔ چائے والے نے اپنے ٹھیلے سے چائے بھی لا کر خاموشی سے رکھ دی تھی۔ آج تو اس کا ٹیپ بھی بند تھا جس میں زور و شور سے نورجہاں کے گانے چلتے تھے۔۔۔
" یہ کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔؟" شیخ صاحب نے آخر کار گفتگو کا آغاز کیا۔۔
" ہم کو بستی کے گرد پہرہ سخت کرنا ہوگا۔۔" یہ خانصاحب تھے۔۔۔
" مگر مسئلہ کہاں ہے؟ پہلے وہ تو پتا لگے۔۔؟" ملک صاحب نے اپنی ہی کہی۔۔۔
مسئلہ گھمبیر ہی تھا۔۔۔ آدھی رات کو کسی بھی گھر کے دروازے پر دستک ہوتی تھی۔۔ صاحب خانہ کا نام لے کر پکارا جاتا تھا۔ پکارنے والا یقیناً پہچان رکھتا تھا۔ جیسے ہی باہر نکلتے اس کے دو دن بعد لاش ملتی کہیں نہ کہیں سے۔۔ ایک دم زرد جیسے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔۔۔
" بس تو پھر یہی حل ہے کہ سرشام سب گھروں میں بند ہوجائیں اور کوئی لاکھ اپنا ہو اس کو کہیں صبح آنا۔۔" زیدی صاحب کی رائے صائب تھی۔
" ٹھیک ہے پھر میں آج مسجد میں اس کا اعلان کر دیتا ہوں۔" یہ امام صاحب تھے۔۔
مگر یہاں ایک اور شخص موجود تھا۔۔ جس کا چہرہ زرد رو تھا۔۔ اور یہ سب سن کر اور زرد ہوا تھا۔

٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭
زرد رو کی خبر سے پریشانی سوا ہوگئی تھی جب اس نے بستی والوں کی خبر دی تھی۔ اجلاس پھر سے شروع ہوا۔
" ایسے تو ہماری بقاء مشکل ہے۔۔ کچھ اور کرنا ہوگا۔۔۔۔" اس نے دن بدن زردپڑتے چہروں پر غور کیا۔۔
" میرے پاس ایک حل ہے۔۔۔۔" ایک اور زرد رو کے چہرے پر لمحہ بھر کو سرخی دوڑی تھی۔۔ اور حل سن کر سب کے چہروں کی زردی کچھ کم ہوئی تھی۔
" جو کرنا ہے اندھیرے میں کرنا ہوگا کیونکہ ہم دن میں تو نہیں نکل سکتے نا۔۔۔۔" پہلی بار زرد رو کے چہرے پر مسکراہٹ چمکی تھی۔۔

٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭
کراتشی: پر تشدد واقعات میں 46 ہلاک،123 زخمی۔ شہر بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔۔ رونامہ جنگ
کراتشی: ایم پی اے قتل، ہنگامے 35 ہلاک۔۔ نوائے وقت
کراتشی: ہلاکتوں میں اضافہ۔۔ بی بی سی نیوز
کراتشی: بدترین دہشت گردی۔۔۔ 35 جاں بحق۔ املاک تباہ

زرد رو کے چہرے کی سرخی اخبارات کی سرخی دیکھ کر بڑھتی جا رہی تھی۔۔ آج ان کے برسوں کی پیاس بجھی تھی۔ جب سے ان کا لائحہ عمل بدلا تھا۔ ان کو روز خوراک میسر آ رہی تھی۔۔ تجویز اچھی تھی۔۔ الگ الگ ہو کر نہیں ان میں شامل ہو جاؤ تو آسانی رہے گی۔۔ ان کو توڑنے میں۔ اور یہ نسخہ کارگر رہا تھا۔۔

" آئیے سر!" اندر آنے والے کے چہرہ پر ایک ذومعنی مسکراہٹ تھی۔۔ " پریس کانفریس کی ساری تیاریاں مکمل ہیں۔ پورا میڈیا تیار ہے۔۔"

" ٹھیک ہے تم چلو، میں آتا ہوں۔۔۔" زرد رو نے گہرے سیاہ گلاسز لگائے۔۔ اس کی چہرے پر ایک مسکراہٹ چمکی تھی۔ جس میں دونوکیلے دانت نمایاں تھے۔۔

Wednesday, June 23, 2010

کیا ہم سادہ مزاج ہیں؟



سادگی کیا ہے؟

کبھی غور کریں تو اس کا مطلب بنتا ہے۔ اپنے لیے آسانی۔ مگر کیا آج کل کے مروجہ معیار کے حساب سے سادگی کا کیا معیار ہے؟
کبھی سوچا؟
ہاں یہ سوچ آئی اور بہت بار آئی۔۔

کہیں یہ سن کر۔۔ " آج تو دعوت ہے گھر میں۔۔ ڈنر/لنچ مینیو کیا ہے؟"

" بھئی بڑی مہنگائی ہے کہاں سے پورا کرے بندہ بس دو چار چیزیں عزت بچانے کو منگالیں اب پورے مہینہ بجٹ ڈسٹربڈ رہے گا۔۔

کبھی ایسا سن کر کہ:" فلاں کی نئی گاڑی ہے ہم کو بھی ماڈل چینج کرنا ہی پڑے گا۔"

اب آتے ہیں زرا متوسط طبقے سے ایک درجہ نیچے محنت کش طبقہ۔
آتے ہی آپ کی ماسی کہے گی باجی فلاں جوڑا مجھے کو دے دو اور ہاں زرا بیلچ بھی کردو میرے کو فلاں میلے میں گاؤں جانا ہے۔
کسی کو برانڈڈ موبائل چاہیئے تو کسی کو کسی مشہور آؤٹ لیٹ کا تیار جوڑا۔

آپس میں جہاں دو لوگ بیٹھے بات کچھ شروع کی جاتی ہے۔
"بھئی اتنا سستا مل رہا تھا پندرہ' پندرہ سو کے چار جوڑے اٹھا لیے۔ مگر اتنے کیا کروں گی میں سوچ رہی ہوں کچھ اس میں سے ماسی کو دے دوں"

ایک آنکھوں دیکھا واقعہ۔
یہاں خاص کر کراچی شہر کا۔ کچھ لوگوں نے "کے ایف سی" کی ایک ڈیل لی ہوگئی کوئی 1000 روپوں تک کی اور باہر جاکر کوڑے میں پھینک دی کہ کون کھاتا ہے ایسا کھانا۔۔


اس کے بعد کیا سوچ آئے گی کہ ہمارا معاشرہ کس تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ شور اٹھتا ہے مسلم معاشرے اس کے اثرات کیا ان لوگوں تک پہنچ رہے ہیں جن تک پہنچنے چاہیئے۔۔
مانا' ہمارا معاشرہ زکوٰۃ کے نام پر بہت کچھ دیتا ہے۔ بہت لوگ بہت لوگوں کی مدد بھی کرتے ہوں گے۔
مگر نمائش' تصنع ایسی سوچ کیوں کب اور کیسے در آئی ہمارے اندر۔؟
کیا اس پر سوچنا فرض نہیں بنتا۔
کیا ہوا اگر آپ بہت کچھ افورڈ کرسکتے ہیں اگر اس میں سادگی در آئے تو جو یہ دوڑ شروع ہوگئی ہے یہ تو رکے گی۔
ایک دفعہ بس ان سے متعلق سوچ لیا جائے کہ جو یہ سب بس سوچ سکتے ہیں افورڈ نہیں کرسکتے۔ تو کیا دل مانے گا آپ کا۔۔

اس کے بعد کے بگاڑ کا سوچا'
اگر نہیں تو
کراچی جیسے شہر میں ہی دن بدن بڑھتی اسٹریٹ کرائم کی تعداد پر غور کر لیجئے گا۔ جہاں صرف ایک سیل فون چھننے کے لیے ایک جان بھی لی جاتی ہے۔

میرا پہلا بلاگ ہے مگر کچھ زیادہ جزباتی ہوگیا ہے۔
مگر تبدیلی گھر سے شروع ہوتی ہے۔
سادگی جو ہمارے دین کا وصف ہے اس کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
بہت شکریہ۔

دھندلکے




دھندلکے

کبھی سورج طلوع ہونے سے پہلے کا منظر دیکھا۔۔ ہر چیز پر ایک کہر سے چھائی ہوتی ہے۔ ہمارے اور روشنی کے بیچ ایک ان دیکھی دیوار ہوتی ہے۔ جس سے سارے منظر دھندلے دکھتے ہیں۔
دھندلے اور خوبصورت بھی۔۔ فضا میں ایک تازگی ہوتی۔۔ ابھی سب کچھ سویا سویا سا محسوس ہوتا ہے بس آپ اور اس روشنی کے بیچ کی دھندلکے جاگ رہے ہوتے ہیں۔۔ جدھر نظر جاتی ہے دھندلکوں کی دیوار منظر کو تھوڑا کم کر کے دکھاتی ہے۔۔
چاہے بارش کا منظر ہو، کسی بہتے پانی کا منظر اس کے پار دیکھنا ذرا سا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔ایک پرفسوں احساس۔ سب کچھ نتھرا نتھرا، یہ سب بہت اچھے لگتے ہیں۔کہر اور دھند میں سما جانے کو اس لمحے میں تحلیل ہونے کو دل کرتا ہے۔۔۔

مگر جیسے ہی سوریا جی اپنا دیدار دیتے ہیں سب کچھ روشن ہوجاتا ہے، ایک ایک چیز عریاں اپنی ساری بدصورتیوں کے ساتھ۔۔ جو سبزہ آنکھوں کو لبھا رہا ہوتا ہے اب کسک کی طرح ہوجاتا ہے۔ سب منظر بھاپ بن کر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ بچتی ہے تو بس ایک حقیقت۔۔ تلخ، برہنہ، چھبنے والی روشنی کی طرح۔

سیانے کہتے ہیں حقیقت میں رہنا سیکھو۔۔
رہنا تو حقیقت میں ہی ہوتا ہے۔ پر کبھی سوچا کیا کچھ دیر کو کسی دھندلکے میں رہ کر دیکھیں۔ کیسا احساس ہوتا ہے۔۔ کبھی کسی تصویر کا ریزولوشن کم کر کے دیکھیں اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔
حقیقت کو ایک طرف دھر کر کچھ خوبصورتی کا احساس کر لیں جس کے لیے ہمارے پاس کبھی وقت ہی نہیں ہوتا۔

باقر خانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔!
باقر خانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
" بھیّا ! کیسے دی۔۔؟"
اور جب اس حساب کتاب میں میں وہ ایک باقر خانی چپکے سے باسی ڈال دیتا ہے۔۔ آپ کو حقیقت دکھ رہی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت کہر ہو تو یہ حقیقت آپ سے چھپ جائے گی۔
بالکل اسی طرح جیسے آپ کی کتنی کوتاہیاں دوسروں کی نظر میں آتی ہوں گی۔۔ اور وہ نظر بچا جاتے ہوں گے۔

بالکل ویسے ہی جیسےٹیبل پر بیٹھ کر احساس کرتے ہیں کہ ایک روٹی کم ہے چلو جانے دو میں خود کم کھالوں گا/گی۔۔ یہ بھی تو ایک دھندلکا ہے نا اپنے ساتھ۔ حقیقت سے صرف نظر۔۔

کبھی اپنی ماؤں سے بھی تو مطالبے ہوئے بھول جاتے ہیں نا کہ وہ بھی چپکے سے پورا کرتے ہوئے کسی دھندلکے میں ہوں اس منظر میں جس میں صرف اور صرف آپ خوب صورت دکھ رہے ہوں گے۔

لیٹ نائٹ شو سے لوٹتے ہوئے ابا سے کہنا: " بابا آج اسٹڈی کرنے رک گئےتھے۔"
اور بابا کا زیر لب مسکرا کر کہنا۔۔" کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔"

اسی طرح کئی ننگی حقیقتیں بکھری پڑی ہیں۔ آس پاس دیکھنے کی عادت ہو تو دکھ ہی جاتی ہیں۔
لیکن اگر خواہش ہو کہ کسی منظر میں تحلیل ہوجائیں تو نظر انداز کر دینا ہی باعث سکون ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح رب لایزل روز محشر کردے صرف نظر۔۔ ہماری ساری حقیقتوں کو جانتے ہوئے۔۔