Wednesday, June 23, 2010

کیا ہم سادہ مزاج ہیں؟



سادگی کیا ہے؟

کبھی غور کریں تو اس کا مطلب بنتا ہے۔ اپنے لیے آسانی۔ مگر کیا آج کل کے مروجہ معیار کے حساب سے سادگی کا کیا معیار ہے؟
کبھی سوچا؟
ہاں یہ سوچ آئی اور بہت بار آئی۔۔

کہیں یہ سن کر۔۔ " آج تو دعوت ہے گھر میں۔۔ ڈنر/لنچ مینیو کیا ہے؟"

" بھئی بڑی مہنگائی ہے کہاں سے پورا کرے بندہ بس دو چار چیزیں عزت بچانے کو منگالیں اب پورے مہینہ بجٹ ڈسٹربڈ رہے گا۔۔

کبھی ایسا سن کر کہ:" فلاں کی نئی گاڑی ہے ہم کو بھی ماڈل چینج کرنا ہی پڑے گا۔"

اب آتے ہیں زرا متوسط طبقے سے ایک درجہ نیچے محنت کش طبقہ۔
آتے ہی آپ کی ماسی کہے گی باجی فلاں جوڑا مجھے کو دے دو اور ہاں زرا بیلچ بھی کردو میرے کو فلاں میلے میں گاؤں جانا ہے۔
کسی کو برانڈڈ موبائل چاہیئے تو کسی کو کسی مشہور آؤٹ لیٹ کا تیار جوڑا۔

آپس میں جہاں دو لوگ بیٹھے بات کچھ شروع کی جاتی ہے۔
"بھئی اتنا سستا مل رہا تھا پندرہ' پندرہ سو کے چار جوڑے اٹھا لیے۔ مگر اتنے کیا کروں گی میں سوچ رہی ہوں کچھ اس میں سے ماسی کو دے دوں"

ایک آنکھوں دیکھا واقعہ۔
یہاں خاص کر کراچی شہر کا۔ کچھ لوگوں نے "کے ایف سی" کی ایک ڈیل لی ہوگئی کوئی 1000 روپوں تک کی اور باہر جاکر کوڑے میں پھینک دی کہ کون کھاتا ہے ایسا کھانا۔۔


اس کے بعد کیا سوچ آئے گی کہ ہمارا معاشرہ کس تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ شور اٹھتا ہے مسلم معاشرے اس کے اثرات کیا ان لوگوں تک پہنچ رہے ہیں جن تک پہنچنے چاہیئے۔۔
مانا' ہمارا معاشرہ زکوٰۃ کے نام پر بہت کچھ دیتا ہے۔ بہت لوگ بہت لوگوں کی مدد بھی کرتے ہوں گے۔
مگر نمائش' تصنع ایسی سوچ کیوں کب اور کیسے در آئی ہمارے اندر۔؟
کیا اس پر سوچنا فرض نہیں بنتا۔
کیا ہوا اگر آپ بہت کچھ افورڈ کرسکتے ہیں اگر اس میں سادگی در آئے تو جو یہ دوڑ شروع ہوگئی ہے یہ تو رکے گی۔
ایک دفعہ بس ان سے متعلق سوچ لیا جائے کہ جو یہ سب بس سوچ سکتے ہیں افورڈ نہیں کرسکتے۔ تو کیا دل مانے گا آپ کا۔۔

اس کے بعد کے بگاڑ کا سوچا'
اگر نہیں تو
کراچی جیسے شہر میں ہی دن بدن بڑھتی اسٹریٹ کرائم کی تعداد پر غور کر لیجئے گا۔ جہاں صرف ایک سیل فون چھننے کے لیے ایک جان بھی لی جاتی ہے۔

میرا پہلا بلاگ ہے مگر کچھ زیادہ جزباتی ہوگیا ہے۔
مگر تبدیلی گھر سے شروع ہوتی ہے۔
سادگی جو ہمارے دین کا وصف ہے اس کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
بہت شکریہ۔

دھندلکے




دھندلکے

کبھی سورج طلوع ہونے سے پہلے کا منظر دیکھا۔۔ ہر چیز پر ایک کہر سے چھائی ہوتی ہے۔ ہمارے اور روشنی کے بیچ ایک ان دیکھی دیوار ہوتی ہے۔ جس سے سارے منظر دھندلے دکھتے ہیں۔
دھندلے اور خوبصورت بھی۔۔ فضا میں ایک تازگی ہوتی۔۔ ابھی سب کچھ سویا سویا سا محسوس ہوتا ہے بس آپ اور اس روشنی کے بیچ کی دھندلکے جاگ رہے ہوتے ہیں۔۔ جدھر نظر جاتی ہے دھندلکوں کی دیوار منظر کو تھوڑا کم کر کے دکھاتی ہے۔۔
چاہے بارش کا منظر ہو، کسی بہتے پانی کا منظر اس کے پار دیکھنا ذرا سا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔ایک پرفسوں احساس۔ سب کچھ نتھرا نتھرا، یہ سب بہت اچھے لگتے ہیں۔کہر اور دھند میں سما جانے کو اس لمحے میں تحلیل ہونے کو دل کرتا ہے۔۔۔

مگر جیسے ہی سوریا جی اپنا دیدار دیتے ہیں سب کچھ روشن ہوجاتا ہے، ایک ایک چیز عریاں اپنی ساری بدصورتیوں کے ساتھ۔۔ جو سبزہ آنکھوں کو لبھا رہا ہوتا ہے اب کسک کی طرح ہوجاتا ہے۔ سب منظر بھاپ بن کر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ بچتی ہے تو بس ایک حقیقت۔۔ تلخ، برہنہ، چھبنے والی روشنی کی طرح۔

سیانے کہتے ہیں حقیقت میں رہنا سیکھو۔۔
رہنا تو حقیقت میں ہی ہوتا ہے۔ پر کبھی سوچا کیا کچھ دیر کو کسی دھندلکے میں رہ کر دیکھیں۔ کیسا احساس ہوتا ہے۔۔ کبھی کسی تصویر کا ریزولوشن کم کر کے دیکھیں اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔
حقیقت کو ایک طرف دھر کر کچھ خوبصورتی کا احساس کر لیں جس کے لیے ہمارے پاس کبھی وقت ہی نہیں ہوتا۔

باقر خانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔!
باقر خانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
" بھیّا ! کیسے دی۔۔؟"
اور جب اس حساب کتاب میں میں وہ ایک باقر خانی چپکے سے باسی ڈال دیتا ہے۔۔ آپ کو حقیقت دکھ رہی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت کہر ہو تو یہ حقیقت آپ سے چھپ جائے گی۔
بالکل اسی طرح جیسے آپ کی کتنی کوتاہیاں دوسروں کی نظر میں آتی ہوں گی۔۔ اور وہ نظر بچا جاتے ہوں گے۔

بالکل ویسے ہی جیسےٹیبل پر بیٹھ کر احساس کرتے ہیں کہ ایک روٹی کم ہے چلو جانے دو میں خود کم کھالوں گا/گی۔۔ یہ بھی تو ایک دھندلکا ہے نا اپنے ساتھ۔ حقیقت سے صرف نظر۔۔

کبھی اپنی ماؤں سے بھی تو مطالبے ہوئے بھول جاتے ہیں نا کہ وہ بھی چپکے سے پورا کرتے ہوئے کسی دھندلکے میں ہوں اس منظر میں جس میں صرف اور صرف آپ خوب صورت دکھ رہے ہوں گے۔

لیٹ نائٹ شو سے لوٹتے ہوئے ابا سے کہنا: " بابا آج اسٹڈی کرنے رک گئےتھے۔"
اور بابا کا زیر لب مسکرا کر کہنا۔۔" کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔"

اسی طرح کئی ننگی حقیقتیں بکھری پڑی ہیں۔ آس پاس دیکھنے کی عادت ہو تو دکھ ہی جاتی ہیں۔
لیکن اگر خواہش ہو کہ کسی منظر میں تحلیل ہوجائیں تو نظر انداز کر دینا ہی باعث سکون ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح رب لایزل روز محشر کردے صرف نظر۔۔ ہماری ساری حقیقتوں کو جانتے ہوئے۔۔