Wednesday, June 23, 2010

دھندلکے




دھندلکے

کبھی سورج طلوع ہونے سے پہلے کا منظر دیکھا۔۔ ہر چیز پر ایک کہر سے چھائی ہوتی ہے۔ ہمارے اور روشنی کے بیچ ایک ان دیکھی دیوار ہوتی ہے۔ جس سے سارے منظر دھندلے دکھتے ہیں۔
دھندلے اور خوبصورت بھی۔۔ فضا میں ایک تازگی ہوتی۔۔ ابھی سب کچھ سویا سویا سا محسوس ہوتا ہے بس آپ اور اس روشنی کے بیچ کی دھندلکے جاگ رہے ہوتے ہیں۔۔ جدھر نظر جاتی ہے دھندلکوں کی دیوار منظر کو تھوڑا کم کر کے دکھاتی ہے۔۔
چاہے بارش کا منظر ہو، کسی بہتے پانی کا منظر اس کے پار دیکھنا ذرا سا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔ایک پرفسوں احساس۔ سب کچھ نتھرا نتھرا، یہ سب بہت اچھے لگتے ہیں۔کہر اور دھند میں سما جانے کو اس لمحے میں تحلیل ہونے کو دل کرتا ہے۔۔۔

مگر جیسے ہی سوریا جی اپنا دیدار دیتے ہیں سب کچھ روشن ہوجاتا ہے، ایک ایک چیز عریاں اپنی ساری بدصورتیوں کے ساتھ۔۔ جو سبزہ آنکھوں کو لبھا رہا ہوتا ہے اب کسک کی طرح ہوجاتا ہے۔ سب منظر بھاپ بن کر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ بچتی ہے تو بس ایک حقیقت۔۔ تلخ، برہنہ، چھبنے والی روشنی کی طرح۔

سیانے کہتے ہیں حقیقت میں رہنا سیکھو۔۔
رہنا تو حقیقت میں ہی ہوتا ہے۔ پر کبھی سوچا کیا کچھ دیر کو کسی دھندلکے میں رہ کر دیکھیں۔ کیسا احساس ہوتا ہے۔۔ کبھی کسی تصویر کا ریزولوشن کم کر کے دیکھیں اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔
حقیقت کو ایک طرف دھر کر کچھ خوبصورتی کا احساس کر لیں جس کے لیے ہمارے پاس کبھی وقت ہی نہیں ہوتا۔

باقر خانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔!
باقر خانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
" بھیّا ! کیسے دی۔۔؟"
اور جب اس حساب کتاب میں میں وہ ایک باقر خانی چپکے سے باسی ڈال دیتا ہے۔۔ آپ کو حقیقت دکھ رہی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت کہر ہو تو یہ حقیقت آپ سے چھپ جائے گی۔
بالکل اسی طرح جیسے آپ کی کتنی کوتاہیاں دوسروں کی نظر میں آتی ہوں گی۔۔ اور وہ نظر بچا جاتے ہوں گے۔

بالکل ویسے ہی جیسےٹیبل پر بیٹھ کر احساس کرتے ہیں کہ ایک روٹی کم ہے چلو جانے دو میں خود کم کھالوں گا/گی۔۔ یہ بھی تو ایک دھندلکا ہے نا اپنے ساتھ۔ حقیقت سے صرف نظر۔۔

کبھی اپنی ماؤں سے بھی تو مطالبے ہوئے بھول جاتے ہیں نا کہ وہ بھی چپکے سے پورا کرتے ہوئے کسی دھندلکے میں ہوں اس منظر میں جس میں صرف اور صرف آپ خوب صورت دکھ رہے ہوں گے۔

لیٹ نائٹ شو سے لوٹتے ہوئے ابا سے کہنا: " بابا آج اسٹڈی کرنے رک گئےتھے۔"
اور بابا کا زیر لب مسکرا کر کہنا۔۔" کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔"

اسی طرح کئی ننگی حقیقتیں بکھری پڑی ہیں۔ آس پاس دیکھنے کی عادت ہو تو دکھ ہی جاتی ہیں۔
لیکن اگر خواہش ہو کہ کسی منظر میں تحلیل ہوجائیں تو نظر انداز کر دینا ہی باعث سکون ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح رب لایزل روز محشر کردے صرف نظر۔۔ ہماری ساری حقیقتوں کو جانتے ہوئے۔۔

2 comments:

  1. آہا۔ ۔ سو نائس مُونا۔
    بہت اچھا لکھا اور بہت اچھے سے اپنی بات پہنچائی۔
    خوش رہو۔

    ReplyDelete
  2. بہت خوبصورت انداز میں آپ نے یہ نکتہ بیان کیا۔کیپ رائیٹنگ

    ReplyDelete